- Get link
- X
- Other Apps
Dajjal story in urdu
- Get link
- X
- Other Apps
یاجوج و ماجوج کوحضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹےیافث کی اولاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں وحشی قبیلے انسانی نسل میں اپنی بربریت کے حوالے سے مشہور رہے ہیں جو اپنے گردوپیش کے رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیوں کو تباہ و برباد کر دیتے تھے۔
قرآن حکیم کی آیات، توریت کے مطالع اور تاریخ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج قبائل شمال مشرقی ایشیا میں رہا کرتے تھے اور اپنے شدید وحشیانہ حملوں کے زور پر ایشیا کےجنوبی اور مغربی علاقوں میں حملے کرتے تھے۔ کچھ مورخوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اور توبل سیک کے آس پاس بتایا ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یاجوج و ماجوج تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔حضرت ذوالقرنین (کچھ اسلامی مورخین کے مطابق وہ بھی نبی تھے)کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملےلوگوں کیلئے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کیلئے حضرت ذوالقرنین نے پہاڑوں کے درمیان اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر کی۔ ذوالقرنین اور ذوالقرنین کی دیوار کا تذکرہ قرآن کریم کی سورة الکہف میں موجود ہے۔حضرت ذوالقرنین کے مرتبہ کے سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
تاریخی حقائق کے مطالعے کے بعد لوگوں نے حضرت ذوالقرنین کی شخصیت اور دیوارِ ذوالقرنین سے بارے میں مختلف اندازے لگائے ہیں۔
بہت سے علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر کچھ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا لقب بھی تھا۔موجودہ زمانے کے کچھ مفسرین و مفکرین ذوالقرنین کو زمانئہ قدیم کےایک ایرانی بادشاہ (سائرس اعظم)یا(کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ بات نسبتاً زیادہ قریبِ قیاس ہے، لیکن بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی بھی شخصیت کو ذوالقرنین نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ذوالقرنین کی بابت قرآن نے تفصیلی گفتگو کی ہے کہ وہ ایک ایسا حکمران تھا کہ جس کو ﷲ تعالیٰ نے اسباب و وسائل کی کثرت سے نوازا تھا۔ وہ مشرق اور مغرب کےممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری جانب یاجوج اور ماجوج کے قبائل آباد تھے۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں یاجوج ماجوج کے حوالے سے حضرت ذوالقرنین کے حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب حضرت ذوالقرنین اپنی شمالی مہم کے دوران فتح کرتے ہوے سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں حضرت ذوالقرنین کو ایک ایسی قوم ملی جس کی زبان وہ سمجھنے سے قاصر تھے لیکن پھر کسی ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو اس قوم نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج ہماری اس سرزمین پر فساد کرتے ہیں لہٰذا تو(یعنی ذوالقرنین ہمارے اور ان کے بیچ ایک سد (دیوار) تعمیر کر دے۔ چنانچہ پھر تفصیلا ًدرج ہے کہ پھر کس طرح ذوالقرنین نے اُس قوم کو یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچانے کیلئے ایک دیوار بنائی اور جو دیوار بنائیگئی وہ کوئی خیالی اور مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی اور اصلی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنوائ گئی تھی جس کی وجہ سے جزوقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔
لہذا جب یہ دیوار مکمل ہو گئی تو ذوالقرنین نے ﷲ کا شکر ادا کیا جس نےاس دیوار کو بنوانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلوانے کی توفیق عطا کی مگر ساتھ ہی انھوں نےاس قوم کے لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ اگرچہ یہ دیوار بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ دیوار لازوال نہیں ہے کیونکہ جو چیز بھی بنی ہے بالآخر اسے فنا ہوناہےاورجب میرے پروردگار کے وعدے کا وقت آئیگا تو وہ رب تعالیٰ اس دیوار کو پیوندخاک کر دے گا اور یقیناً میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے۔
شاہین راٹھور
Comments
Post a Comment
If you have any question than feel free contact me.