- Get link
- X
- Other Apps
Dajjal story in urdu
- Get link
- X
- Other Apps
میں اپنے بلاگ میں دجال کی چالبازی سے ضرور پردہ اٹھاؤں گا
(آپ مجھے فالوو کیجئے (شاہین راٹھور
وہ ان دیکھے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اس دنیا کو اپھنے کنٹرول میں کر چکے ہیں
جن کی حکومت انسانوں پر قائم ھو چکی ہے
اور جو ھم سب کو ہپنوٹائز کر چکے ہیں اپنا معمول بنا چکے ہیں اور اپنے ھر حکم کو ھم تک براہ راست پہنچا رھے ہیں. آپ اپنے اور دوسرے ملکوں میں جمہوریت یا جمہوری حکومتوں کے نظام کی بات چھوڑیں یہ سارے نظام بھی انہی کے ماتحت اور غلام ہیں.
حکومتوں کا آنا جانا حکومتوں کا بننا ٹوٹنا پارٹیوں کا الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آنا یا کچھ ملکوں میں ڈکٹیٹر شپ کے نظام قائم ھونا سب انہی کے اشاروں پر کھیل رچائے جاتے ہیں انہی کی ھلائی ھوئی ڈوریوں پر ھم سب کٹھ پتلیاں بن کر ناچ رہے ہیں. یہ سارا میڈیا کسی بھی قسم کا میڈیا ھو ھر جگہ ان کے لوگ کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں. وہ بہت مضبوط ہیں بہت طاقتور ہیں اور اپنے تمام کے تمام منصوبوں میں انتہائی کامیاب جا رھے ہیں.
آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے ھالی وڈ کی فلموں کا ایک نامور نوجوان فلمساز ڈیوڈ کراؤلی اپنے گھر میں اپنی بیوی اور آٹھ سالہ بیٹی کے ہمراہ مردہ پایا گیا تین افراد کے اس چھوٹے سے خاندان کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا اس فلمساز کی ایک فلم جس کا نام ‘’گرے سٹیٹ ‘’ تھا ایک ڈیڑھ ماہ بعد ریلیز ہونے والی تھی لیکن فلم ریلیز ہونے سے پہلے اس کو اس کے خاندان سمیت مار دیا گیا اس لئے وہ فلم دنیا میں کبھی نمائش کے لئے پیش نہ ہو سکی فلم کی پبلسٹی کے لئے جو ٹریلر دکھایا جاتا تھا اس میں ایک ایسی خفیہ اور انتہائی طاقتور تنظیم کا قصہ بیان کیا گیا تھا جو خفیہ طور پر پوری دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کئے ہوئے ہوتی ہے ۔ فلم کی کہانی کے مطابق وہ ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جو بظاہر نظر تو نہیں آتی لیکن اس کی بالادستی پوری دنیا پر قائم ہوتی ہے ۔ ھالی وڈ کے اس فلمساز کے قتل کا سراغ آج تک پولیس کو نہیں مل سکا بلکہ کہا جاتا ہے کہ پولیس نے خود ہی موقعہ واردات پے قتل کے تمام شواہد غائب کردئیے اور تمام ثبوت مٹادئیے ورنہ امریکہ جیسے ملک میں کسی نامور فلمساز کے قتل میں ملوث اس کے قاتلوں کا راز نہ ملنا ناقابل یقین بات ہے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ فلمساز اس گرے سٹیٹ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا تھا جس کی حقیقت میں حکمرانی تھی اور وہ نہیں چاہتےتھے کہ کوئی فلمساز دنیا کے سامنے ان کی حقیقت کو دنیا کے سامنے بیان کرسکے
ھالی وڈ کی دنیا میں اسی گرے سٹیٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بالادستی ہے لیکن ان میں سے بعض فلمساز ان کی حقیقت کو جان کر فلموں کے ذریعے دنیا کو ان کے بارے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ ایسے فلمساز کو یا تو راستے سے ہی ہٹا دیتے ہیں یا پھر اس کا کیرئیر تباہ کر دیتے ہیں ۔ گرے سٹیٹ یا نظر نہ آنے والی شیطانی ریاست کہ بارے جاننے والے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کسی نے ان کے متعلق لب کشائی کرنے کی کوشش کی اسے وہ زندہ نہیں چھوڑیں گے پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی میڈیا الیکٹرونک ہو پرنٹ ہو یا انٹرنیٹ ہر جگہ پر ان کی حکمرانی ہے کسی اخبار کا صحافی یا کسی ٹیلی ویثرن چینل کا رپورٹر اگر ان کے بارے میں کچھ سامنے لانے کی کوشش کرے گا تو کوئی ٹی وی چینل یا اخبار اس کام میں اس کا ساتھ نہیں دے گا ۔ حتی کہ یہاں پاکستانی ٹی وی چینل میں سے بھی اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا اس ٹی وی چینل یا اس پروگرامر کا مستقبل بالکل تباہ کردیا جائے گا لہذا ان کے بارے میں ان کی حقیقت سامنے لانے والا کوئی فلمساز وغیرہ ہی ہو سکتا ہے جو اپنی کسی فلم کے زریعے ان کے بارے میں دنیا کو بتا سکتا ہے
ھالی وڈ میں بننے والی ایک اور فلم جس کا نام They Live نامی فلم شاید کسی کے ذہن میں ہو اس فلم میں بہت کھل کر ان خفیہ قوتوں کے بارے میں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے جن کا تسلط اس دنیا پر قائم ہے ۔ یہ ایک لاجواب فلم ہے جس میں کسی تنظیم یا گروپ کا نامُ لئیے بغیر صدیوں سے دنیا کے انسانوں پر کنٹرول کے خواہشمند انسانوں کو بے نقاب کرتی ہے یہ فلم بھی جلد ہی منظر عام سے ہٹا دی گئی حقیقت یہ ہے کہ ھالی وڈ کی یہ واحد فلم تھی جس میں شیطانی منصوبے بنانے والے گروہوں کو بڑی خوبصورتی سے اشاروں اشاروں مےں بے نقاب کر دیا گیا تھا فلم کے آغاز میں فلم کا ہیرو کسی جگہ سے گزر رہا ہوتا ہے وہاں پے قریبی پارک میں ایک سیاہ فارم پادری پانچ چھے لوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کئیے ہوئے تقریر کر رہا تھا تقریر کرتے ہوئے وہ لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ وہ اس دنیا کے تمام انسانوں کو اپنا غلام بنا لینا چاہتے ہیں وہ دنیا سے خدا کا نام اور خدا کے ماننے والوں کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتے ہیں اور اس دنیا کو اپنے شیطانی نظام کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں
فلم کا ہیرو اس تقریر کو محض بکواس اور فضول باتیں سمجھ کر آگے گزر جاتا ہے کچھ ہی دیر بعد ابھی وہ تھوڑا سا آگے جاتا ہے کہ اچانک ہر طرف سے پولیس کی گاڑیاں نمودار ہوتی ہیں اور اس پادری اور وہاں کھڑے لوگوں پر پولیس کی جانب سے تشدد شروع کردیا جاتا ہے وہ لوگ اپنی جانیں بچانے کی خاطر وہاں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ فلم میں تھوڑا آگے چل کر پولیس اس چرچ پر چھاپہ مارتی ہے جہاں وہ پادری مقیم ہوتا ہے اتفاق سے فلم کا وہی ہیرو اس وقت پولیس کو چرچ پر چھاپہ مارتے ہوئے دیکھتا ہے اور وہاں سے پادری کو کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کر کے ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھتا ھے ۔ یہ شخص تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسی جگہ اس چرچ میں جاتا ہے اور وہاں پر اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ لوگ کسطرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے کہ جس کی وجہ سے ہولیس ان کو گرفتار کر رہی ہے وہاں پر سامان کا جائزہ لیتے ہوئے اسے ایک باکس ملتا ہے جس کو تالاُلگا ہوتا ہے وہ اس بکس کے تالے کو توڑ کر باکس کی تلاشی لیتا ہے اس میں سے اسے سینکڑوں عجیب و غریب قسم کی سیاہ شیشے والی عینکیں ملتی ہیں
وہ ان میں سے ایک عینک اٹھا کر اپنی آنکھوں پر لگاتا ہے تو اس کے سامنے سے منظر ہی بدل جاتے ہیں دراصل یہ عینکیں ان لوگوں کی پہچان کے لئے بنائی گئی ہوتی ہیں جو انسانوں پر کنٹرول کرنے والے شیطانی منصوبوں والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں فلم کا ہیرو وہ سیاہ چشمہ لگا کر چرچ سے باہر آجاتا ہے تو اس کے سامنے ایک نئی دنیا ہی نظر آرہی ہوتی ہے ۔
مثال کے طور پر اس کے سامنے ایک بہت بڑا بل بورڈ جو ایک سڑک کے کنارے پر لگا ہوتا ہے اس پر ایک لڑکی جو کہ کاسمیٹکس کی ایڈورٹائز فوٹو کے ساتھ موجود ہوتی ہے عینک لگانے کے بعد وہ بورڈ بہت بڑے سادہ سے تختے کے مانند نظر آنے لگتا ہے جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ خدا کہیں پر بھی نہیں اسی طرح سے کچھ دور اگلے بورڈ پر اسی طرح ایڈورٹائزنگ کی بجائے موٹے موٹے حروف میں یہ پیغام لکھا ہوتا ہے کہ تم سب ہمارے غلام ہو جیسے ہی وہ دوبارہ چشمہ اتارتا ہے تو پھر بورڈ پر وہی ایڈورٹائزنگ والی لڑکی نظر آتی ہے حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ ہر بورڈ پر جن اشیا کی فوٹوز مشہوری کے لئے پیش کی گئی ہوتی ہیں وہ کوئی اتنی اہم بھی نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان کو خریدنے والے کوئی شوقیہ خریدار ہوتے ہیں لیکن ہر فوٹو کے ساتھ کچھ عجیب و غریب الفاظ اور شکلیں ضرور بنی ہوتی ہیں اسی طرح وہ ایک شخص کو دیکھتا ہے جس کے ہاتھوں میں کرنسی نوٹ ہوتے ہیں لیکن جب وہ چشمہ لگا کر دیکھتا ہے تو وہ نوٹ سادہ کاغذ کی شکل میں ہوتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ پیسہ ہی تمہارا خدا ہے
فلم کافی دلچسپ ہے اور اس میں اشاروں ہی اشاروں میں پوری طرح ان خفیہ پیغامات کی حقیقت دکھائی گئی ہے جو ہر روزہمارے اردگرد کے ماحول میں آج بھی موجود نظر آتے ہیں لیکن ہم ان پر دھیاں نہیں دیتے آپ ابھی بازار کو نکل جائیں بالکل کچھ اسی طرح کی صورتحال آپ کی آنکھوں کے سامنے جگہ جگہ نظر آئے گی آپ دیکھیں گے کہ سڑکوں پر مارکیٹوں میں گلیوں بازاروں میں مختلف اقسام کے بہت بڑے بڑے بورڈز لگے ہوں گے جن پر کچھ چیزوں کی مشہوری کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب اور بے معنی الفاظ نظر آئیں گے جن کا بظاہر کوئی مطلب نہیں ہوگا یا پھر بظاہر ایسی شکلیں جن کا کوئی بھی مطلب آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا وہ بنی ہوئی نظر آئیں گی پھر یہاں تک تو کیا کسی فلم کسی ڈرامے کسی بچوں کے پروگرام کسی کارٹون یا فلم یا کسی بھی اخبار رسالے کو ذرا گہری نظر سے دیکھیں فلموں کے نظارے میں کرداروں کے پس منظر میں ایسے ہی عجیب و غریب نشانات نظر آئیں گے کہیں پر مخصوص قسم کی تکونیں نظر آئیں گی کہیں پر کچھ تحریریں لکھی ہوں گی کچھ الفاظ جن کے کوئی معنی نہیں ہوں گے ہر جگہ پر آپ کو نظر آئیں گے کسی بھی گانے کو دیکھ لیجئیے اس کے بھی پس منظر میں ایسا ہی سب کچھ عجیب و غریب نظر آئے گا ۔
جس کا کچھ بھی مطلب نہیں ہو گا جیسا کہ میں پہلے بھی ایک تحریر میں بتا چکا ہوں کہ دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کی تقریروں کے دوران ان کے پیچھے کچھ عجیب و غریب پینٹنگز اور مناظر وغیرہ شاملُ ہوتے ہیں موجود ہوں گے ان مناظر میں ہر جگہ پر کچھ کوڈز کی صورت میں ایسے پیغامات درج ہوتے ہیں جو ہمارے تحت شعور کو براہ راست ٹارگٹ کرتے ہیں جبکہ ہمارا شعور ان کو گرفت میں لینے میں ناکام رہتا ہے یہ پیغامات کس مقصد کے لئے ہمارے تحت شعور میں پہنچائے جاتے ہیں آئیے اس کا مقصد بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ خفیہ پیغامات ہمارے تحت شعور میں ہمارے ایمان کو ہمارے عقیدے کو نشانہ بناتے ہیں ہمارے ماں باپ کے بتائے ہوئے خدائے واحد کے راستے پر یقین کو متزلزل کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن ہم ایمان سے خالی ہوتے جا رہے ہیں ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ دنیا فانی اور عارضی ہے اس کے باوجود ہم یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ یہیں پر رہنا ہے اور اس دنیا کی رونقیں ہی سب کچھ ہیں حالانکہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ماں باپ اور بڑوں کو قبروں میں اتارتے ہیں پھر بھی ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کا ایسا یقین دلا دیا گیا ہے کہ ہم سبق حاصل نہیں کرتے اور اس فانی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں جبکہ آج سے دو سو چار سو سال پہلے والی نسلوں کا ایمان ہم سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتا تھا اور ان کو اس دنیا کے فانی ہونے پر کوئی شک نہیں تھا ۔ آج ہم اور ہمارے بچے اس عارضی دارالامتحان کو ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھ کر دل لگا بیٹھے ہیں ۔
Comments
Post a Comment
If you have any question than feel free contact me.